حدیث عربی زبان کا لفظ ہے. اور یہ قدیم کی ضد ہے. قدیم کہتے ہیں پرانے کو اور حدیث کہتے ہیں نۓ کو، جب کوئی بات کرتا ہے تو متکلم کی بات سننے والے کے لیے نئی ہوتی ہے ، اس لیے بات کو حدیث کہا جاتا ہے .
حرف عام میں یہ نبی کریم صلی علیہ وآله وسلم کے کلام اور عمل کے ساتھ خاص ہے.وہ کلام جو آپ صلی علیہ وسلم کے ساتھ منسوب ہوا یا جو آپ نے اپنے ساتھ منسوب فرمایا حدیث کہلاتا ہے.آپ صلی علیہ وسلم نے اس لفظ “حدیث” کو بھی کلام میں شامل کیا ..”کہ الله اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے سنے (حدیث ) اور اسے اسی طرح آگے پہنچا دے …
کیںو ں کے بسا اوقات انسان جو کسی سے سنتا ہے اس کو براہ راست سننے والے سے زیادہ اچھا پہنچا دیتا ہے . صحابہ رضی الله اجمعین میں حدیث سیکھنے کی حرص بہت زیادہ تھی .. اور اسی لیے وہ ،وہ بہترین طبقہ بن گے جنھیں الله رب العزت کی رضامندی حاصل ہو گئی..
بہت خوبصورت رغبت علم کا معملا یاد آ رہا ہے… ایک روز حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے اپ صلی علیہ وسلم سے دریافت کیا “قیامت کے دن آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہوگا؟” آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا “تم نہیں حدیث کی حرص میں نے دیکھی ہے، مجھے امید تھی تم سب سے پہلے یہ سوال کرو گے “(رواه بخاری) یہ تھا شوق صحابہ کرام کا.. سبحان الله! اس امت پر ایک اور رحمت اور خوشخبری ہے ،الله رب العزت فرماتے ہیں “یقینا ہم نے یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرنے والے ہیں ” وحی کا ایک حصہ تو تلاوت ہوتا ہے جسے کہتے ہیں وحی متلو (جاری ہے )