Prison Diaries Page#1

٩ جمادی الاخری ٧٢٧ ہجری میں انکو کتابت سے روک دیا گیا اور انکے تمام مسودات و اوراق کو عدلیہ لائبرری میں منتقل کر دیا گیا، وہ ٢٠ جلدوں پر مشتمل تھے…  قلم پاس تھا نہیں؛نہ سیاہی ، نہ کوئی لکھی دستاویز تو پھر اسنے کوئلے  اور یاداشت سے لکھنا شروع کردیا… اس کے لیے یہ ایک اندوناک و دل گداز صدمہ تھا،مگر یہ ہر صدمہ اسکے رب کی مشعیت کا حصہ تھا اور وہ اپنے خالق سے راضی تھا؛ یہی ثبات تھا،امید تھی اور حوصلہ تھا جسنے اسے کوئلہ اٹھانے اور لکھنے کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی ڈھارس دی .

وہ فرماتے تھے “دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ میرا باغ میرے سینے میں ہے-میں جہاں بھی جاتا ہوں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوتا- میرا قید ہونا خلوت ہے، میرا قتل ہونا شہادت ہے اور میرا شہر بدر ہونا سیاحت ہے. آخری بار وہ ١٦ شوال ٧٢٦ ہجری کو قلع دمشق میں قید ہوے… قید کرنے والے کلمہ گو تھے- جب قید ہوے تو فرمایا  “میں اسی کا منتظر تھا، اس قید میں خیر کثیر اور مصلحت کبیرہ ہے، میں اس عرصے میں تلاوت،تصنیف اور مخالفین پر رد میں مشغول رہوں گا” چنانچہ انہوں نے  قبور کی زیارت بدعیہ پر لکھا اور زیارت شریعہ کو واضح کیا .

امت اسلامیہ کے وجود میں ضعف چوتھی صدی ہجری میں واقع ہوا تھا اور ایسے عوامل کا آغاز ہو گیا تھا جس سے مسلم شریعہ پہ -مصائب کا نزول برپا ہو گیا مسلمانوں کو مشرق سے تاتاری حملوں اور مغرب سے صلیبی جنگوں کا سامنا تھا. بلاد شام نے دو صدیاں یورپی حکومت کے ماتحت گزاریں- صلیبی فوجیں ایک جانب ایک جانب مسلمانوں میں ایسی شر انگیزیاں جنہوں نے مسلمانوں کی ہیبت کا خاتمہ کر دیا- ایسے حالات سے معلوم ہوا چاہتا ہے کے ان کے عہد میں ملکی، سیاسی،حکومتی اور اسلامی انتشار کا آغاز ہو چکا تھا. عادات، عقائد، رسومات، تقلید، سلوک و حالات میں انحراف واقع ہو چکا تھا اسلام اجنبی بن گیا، مسلمین کا اتفاق ختم ہو گیا،prison diary page

ایسے عقائد کا ظہور ہو گیا جو سلف صالحین کے طریق کی کسی صورت پرواہ نہیں کرتے تھے، فکری جمود اور اندھی تقلید میں اپنی دماغی صلاحیت کو پیوستہ کر کے غیر اسلامی و فطری عبقر میں اپنے ایمان کو اطفلی آندھیوں میں جکڑ چکے تھے اور یہ آندھیاں شدت پکڑ رہیں تھیں- علمی فضا متاثر تھی، رافضیہ، معتزلہ، جہمیہ، قبیلیہ، قدریہ، قبوریہ، دہریہ، متشبیہ، رواندیہ، مجسیمہ، سلیمیہ جیسے گمراہ فرقوں کا ظہور فتنہ بن کے سامنے آیا تھا- ایک جانب اہل کلام و  فلسفیوں نے قرآن و سنت سے زیادہ علم کلام اور فلسفہ کو مقام خاص سے نواز دیا تھا- یہ تو ابھی اندرونی انتشار تھا… بیرونی سازشیں الگ پنپ کے ایک مضبوط چٹان بنی مقابلے میں  – سرگرداں تھیں. اس تاریک و تار فضا میں ان کی پرورش ہوتی,

المعروف ” تقی الدین امام ابن تیمیہ رحیمہ الله ” سلسلہ نسب
” شیخ السلام تقی ادین ابو العباس احمد ابن ‘عبد الحلیم ‘ ابن عبد اسلیم ابن عبداللہ ‘ ابن الخدر ابن محمّد ابن الخدر’ ابن علی ابن عبدللہ ابن تیمیہ اننمیری الحررانی ادّمشقی “
لفظ تیمیہ کے پیچھے کہانی بہت دلچسپ ہے روایات رقم ہیں کہ ابن تیمیہ کے دادا حج کے سفر پر روانہ ہوے تو “تیما” کی وادی میں قیام کیا، وہاں انہوں نے ایک ننھی بچی کو دیکھا جو منفرد پائی… حجکی سعادت کے بعد جب گھر لوٹے تو انکے ہاں ایک چاند جیسی نومولود بیٹی پیدائش ہوئی تھی.. اسکو دیکھا اور کہا ” اے تیمیہ اے تیمیہ” مراد کے وہ بلکل ویسی بچی ہے جیسی وادی تیما میں دیکھی تھی. جبکہ یہ کنیت شیخ کو دی گئی،
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انکے دادا محمد کی والدہ کو تیمیہ کہا جاتا تھا، وہ ایک نامور علامہ تھیں اور دین کی دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیتی تھیں اور انکے بعد یہ نام انکو دے دیا گیا. دونوں روایات میں کوئی تناقص نہیں عین ممکن ہے کے انکا تعلق اپس میں یہی ہو. وہ بچی جنکو تیمیہ کا نام دیا تھا وہ انکی نسبت سے ہو.

اننماریہ قبیلہ نمار سے ہے، حرانی شہر حران سے وابستہ ہے.

دس یا بارہ ربیع اول، ٦٦١ ہجری بروز سوموار کو شہر حران میں انکی پیدائش ہوئی اور اپنی عمر کے ٧ سال انہوں نے اسی شہر میں بسر کیے، وہاں سے انکے والد انکو اور گھر کے تمام افراد کو تاتار سے بچانے کی غرض سے دمشق لے گے. وہ سفر انہوں نے رات میں کیا سامان باندھ نہیں سکتے تھے اور یہ ٧ سے ٨ سال کی عمر کا بچہ اپنے تھیلے میں کتب کا خزانہ سیمٹ کے روانہ ہوا تھا جوکے دور اندیش والد کی نظر میں آیا تھا-

پرورش علم و دانش سے بھرپور ماحول میں ہوئی، چھوٹی عمر میں ہی مسند احمد کی تعلیم حاصل کی اور اسکے ساتھ ساتھ طبرانی اور مختلف علوم شریعہ میں مہارت حاصل کی. علم الحدیث، خطاطی، علوم اربع، حفظ قرآن اور فقہ میں علمی سرگرمی عبد القوی کی زیرنگرانی حاصل کی.انہوں نے علم نحو، صرف، تفسیر اور فقہ کی تعلیم میں مہارت حاصل کی اور یہ تمام علمی موتی انہوں نے انیس سال کے اندر سمیٹے-

ایک روز شہر دمشق میں، انکے والد نے انسے کہا احمد سارے بچے باغ سے دوسری جانب کھیلنے کے لیے جا رہے ہیں جاؤ تم بھی انکے ساتھ کھیل لو، انہوں نے جانے سے انکار کردیا جبکے انکے بڑے بھائی کهیلنے کے لیے روانہ ہو گۓ- انہوں نے سارا دن باغ میں گزارا اور دن کے آخر میں وہ گھر کی جانب روانہ ہوے، انکے والد نے کہا “احمد تم اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں گۓ انکا سارا مزہ کرکرہ ہو گیا… آخر تم کیا کرتے رہے؟ ” تھامی ہوئی کتاب کو اٹھا کر فرمایا جواب دیا “ابا جان آج میں نے یہ کتاب یاد کی”
باپ نے حیرت سے پوچھا “تم نے یہ کتاب یاد کی…
اچھا مجھے سناؤ”

سنے کا مطالبہ تھا اور چھوٹے احمد نے روانی سے کتاب کا لفظ لفظ سنانا شروع کر دیا.. والد نے یہ دیکھا اور دل ہی دل میں عتراف کیا کے واقعی وہ سچ ہے، آنکھوں کے بیچ مقام پہ بوسہ دیا اور کہا “میرے بیتے کسی کو بھی اس بات کا علم نہ ہونے دینا” یہ انہوں نے نظر بد سے بچانے کے لیے کہا تھا بلکل واسے ہے جیسے یعقوب علیہ سلام نے اپنے لختے جگر یوسف علیہ سلام کو کہا تھا.

(جاری ہے)

Leave a Reply