خط آیا سہیلی کا، تھوڑا سرحد پار سے
سکھی رہو، شاد رہو، کیسی ہو ،تم کوئی بات کرو
بتاؤ کیسی ہے مٹی، کیسی ہے خوشبو ،کیسا ہے شادماں؟
بولو کہ کیا آج بھی ہرصبح، مٹی کی خوشبو جگاتی ہے؟
کیا خونِ آزادی کی خشبو آج بھی فضا میں باقی ہے؟
بولو کے کیسے ہیں وہ پیارے، جو ملک آباد کرتے ہیں؟
سناؤ کیسی ہےوہ گڑیا، جو گڑیوں کی شادی کرتی ہے؟
میرے دیس کے کسان کا سناؤ ،کیا آج بھی شام گئے مجلس سجاتے ہیں؟
کیسی ہوتی ہیں شامیں، کیا اب بھی چڑیاں چوں چوں کرتی ہے؟
کیا ہوا اب میرے پیاروں کا جو پہاڑوں میں بستے ہیں؟
کیسے ہیں وہ مسجد کےممبر ،کیا اب بھی غیرت والے ہیں؟
کیسے ہیں میرے جوان جو دھرتی کی حفاظت کرتے ہیں؟
کیسے ہیں ہمارے ذائقے ؟ کیا اب بھی مسالے سچے ہیں؟
کیسے ہیں میرے اخبار کیا اب بھی حق کہتے ہیں؟
کیسی ہیں تعلیم گاہیں؟ کیا وہ اب بھی یہ بتاتی ہیں ۔۔۔
کیسےکھوئے ہم نے پیارے، اس وطن کے مارے،،،
تم ہی سناؤ کیسی ہے نئی پود، کیا آزادی کی کہانیاں سنتی ہے؟
کیا اب بھی چاندنی رات میں، چمبیلی کی خشبو آتی ہے؟
سنو سہیلی سچ بتاؤ میرے دیس کا حال کیسا ہے؟
میرے اردگرد تو بازگشت ہے خالی خولی گونجیں ہیں؟
لاو بالی نسلیں ہیں ،ذہنوں کی غلامی ہے۔۔۔
عید تو خوشیوں سے خالی ہے, مسلمان ہونا گالی ہے
آج ہم دیس میں پردیسی ہیں۔۔۔
پاکستان کے خواب بُنتے ہیں، چھپ چھپ کر دعائیں کر تے ہیں۔۔
تم سناؤ سہیلی تمہارے گیت سہانے، کیا ہماری داستان بتاتے ہیں؟
سنو ایسا نہ کرنا ،تم بھول نہ جانا۔۔۔
وہ قائد کا جذبہ ، قوم کی جانفشانی، وہ لا الہ کی گونج ، وہ مقصدِ آزادی۔۔۔
سنو سہیلی سچ بتاؤ میرے دیس کا حال کیسا ہے؟
خیرکی منتظر تمہاری بہن
از قلم : فصیحہ خان